اسلام علیکم ورحمہ اللہ و برکاته!

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اہل سنت و جماعت اس مسئلہ کے بارے میں؟

(1) شوکت علی ولد محمد علی عمر تقریبا 80 سال کے گھر والوں کی تفصیل درج ذیل ہے شوکت علی ولد محمد علی سربرا ان کی ساری جائیداد خود انہوں نے بنائی ہے اپ اج بھی کاروبار کر رہے ہیں زوجہ شوکت علی مرحومہ بیٹا ایک یہ بھی اپنے والد کے ساتھ عرصہ 25 سال سے کام پر ہے بیٹی چھ تھی ایک فوت ہو گئی ہے چار شادی شدہ ہیں ایک غیر شادی شدہ عمر تقریبا 50 سال ہے شوکت علی صاحب انپڑھ ادمی ہیں اپنی جائیداد اپنی زندگی میں ہی بچوں کو با مطابق شریعت سرکار دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اپ سے رہنمائی کے لیے اپ کی خدمت میں گزارش کی ہے سوال نمبر ایک کیا شوکت علی صاحب کا پوری جائیداد میں صرف ایک ب چھ حصہ تھے یا کوئی کمی بیشی ہے شوکت علی صاحب اپنی مرضی سے کسی کم یا زیادہ حصہ دے سکتے ہیں جو بیٹی غیر شادی شدہ ہے اس کے لیے خاص کر حصہ کا طریقہ کار برائے مہربانی شریعت سرکار کے مطابق ہمیں تحریر کر دیں ہم اپ کے انتہائی مشکور ہوں گے طالب دوا

السائل: مرزا نسیم محمود اوکاڑہ

بسم الرحمن الرحیم ،الجواب فنقول وباللہ التوفیق،برتقدیرصدق تحریر صورت مسؤلہ کے متعلق  شریعت کااصول یہ ہے کہ ترکہ کو مورث کے مرنے کے بعدورثاء میں تقسیم کیاجاتاہے،زندگی میں مرض الموت سے پہلے پہلے ہرشخص کواپنے مال میں تصرف کرنے کااختیارہے جس کو جتنا چاہے دے سکتا ہےلیکن اولی یہ ہے کہ باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کوکچھ دینا چاہے تولڑکوں اورلڑکیوں کوبرابر برابردے اور جس کودے گا اس کے قبضے میں دینا بھی شرط ہے ورنہ ہبہ باطل ہوجائے گا۔تاہم کمی بیشی بھی جائزہے جیسا کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ کو21وسق کجھوریں دیں جواور اولاد کونہ دیں ،حضرت عمر نے اپنے بیٹے عاصم کوایک دفعہ ایک خاص عطیہ دیا جواوراولاد کونہ دیا،عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیٹی ام کلثوم کو خاص عطیہ دیا جواوراولادکونہ دیا ،تمام صحابہ نے یہ واقعات دیکھے اور کسی نے انکارنہ کیالہذااس کے جوازپرصحابہ کااجماع ہوگیا ۔وقد فضل ابوبکرعائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا باحد وعشرین وسقا نخلھا ایاھا دون سائر اولادہ وفضل عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عاصما فی عطائہ وفضل عبدالرحمن  بن عوف ولدام کلثوم ۔قال القاضی رحمہ اللہ وقررذلک ولم ینکرعلیھم فیکون اجماعا(مرقات ج6ص154،مؤلفہ علامہ علی بن سلطان محمدالقاری، متوفٰی1014ھ)

اللہ رب العزت نے وارث کونقصان پہنچانے سے منع فرمایا:

مِنْۢ  بَعْدِ  وَصِیَّةٍ  یُّوْصٰى  بِهَاۤ  اَوْ  دَیْنٍۙ-غَیْرَ  مُضَآرٍّ(النساء12:4)

(ترجمہ)میت کی وصیت اور دین نکال کر جس میں اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔

مفتی احمدیارخاں نعیمی مذکورہ  آیت کے تحت فرماتے ہیں:

بعض لوگ مرتے مرتے ایسی چالاکیوں سےاپنے پر قرض کرجاتےہیں کہ محض وارثوں کو نقصان پہچانے کے لیے، جس کا مشاہدہ اب بھی ہورہا ہے ۔فرمایا نبی کریم ﷺنے جووارثوں کی میراث قطع کرے انہیں محروم کردے یانقصان پہنچادے اللہ تعالی اسے جنت کی میراث سے محروم کردے گا۔تفسیرنعیمی جز4ص477

امام ابومحمد حسین بن محمود بغوی مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں :

كَرِهَ اللَّهُ الضِّرَارَ فِي الْحَيَاةِ وَعِنْدَ الْمَوْتِ، وَنَهَى عَنْهُ وَقَدَّمَ فِيهِ(تفسیر بغوی جز1ص492)واللہ اعلم باصواب
  • استکتبہ خادم العلم والعلماء حافظ غلام یاسین                                معین المفتی مولاناغلام دستگیراکبری
  • مفتی دارالعلوم جامعہ حنفیہ اشرف المدارس اوکاڑہ             تاریخ:5ربیع الثانی1446ھ بمطابق9اکتوبرر 2024ء
  •                               کتبہ:معین المفتی علامہ حامدسبحانی اوکاڑوی،مرکزی دارالافتاء جامعہ حنفیہ دارالعلوم اشرف المدارس اوکاڑہ

 

زندگی میں ہی جائیداد بیٹے اور بیٹیوںمیں تقسیم کرنا

اسلام علیکم ورحمہ اللہ و برکاته!

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اہل سنت و جماعت اس مسئلہ کے بارے میں؟

(1) شوکت علی ولد محمد علی عمر تقریبا 80 سال کے گھر والوں کی تفصیل درج ذیل ہے شوکت علی ولد محمد علی سربرا ان کی ساری جائیداد خود انہوں نے بنائی ہے اپ اج بھی کاروبار کر رہے ہیں زوجہ شوکت علی مرحومہ بیٹا ایک یہ بھی اپنے والد کے ساتھ عرصہ 25 سال سے کام پر ہے بیٹی چھ تھی ایک فوت ہو گئی ہے چار شادی شدہ ہیں ایک غیر شادی شدہ عمر تقریبا 50 سال ہے شوکت علی صاحب انپڑھ ادمی ہیں اپنی جائیداد اپنی زندگی میں ہی بچوں کو با مطابق شریعت سرکار دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اپ سے رہنمائی کے لیے اپ کی خدمت میں گزارش کی ہے سوال نمبر ایک کیا شوکت علی صاحب کا پوری جائیداد میں صرف ایک ب چھ حصہ تھے یا کوئی کمی بیشی ہے شوکت علی صاحب اپنی مرضی سے کسی کم یا زیادہ حصہ دے سکتے ہیں جو بیٹی غیر شادی شدہ ہے اس کے لیے خاص کر حصہ کا طریقہ کار برائے مہربانی شریعت سرکار کے مطابق ہمیں تحریر کر دیں ہم اپ کے انتہائی مشکور ہوں گے طالب دوا

السائل: مرزا نسیم محمود اوکاڑہ

بسم الرحمن الرحیم ،الجواب فنقول وباللہ التوفیق،برتقدیرصدق تحریر صورت مسؤلہ کے متعلق  شریعت کااصول یہ ہے کہ ترکہ کو مورث کے مرنے کے بعدورثاء میں تقسیم کیاجاتاہے،زندگی میں مرض الموت سے پہلے پہلے ہرشخص کواپنے مال میں تصرف کرنے کااختیارہے جس کو جتنا چاہے دے سکتا ہےلیکن اولی یہ ہے کہ باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کوکچھ دینا چاہے تولڑکوں اورلڑکیوں کوبرابر برابردے اور جس کودے گا اس کے قبضے میں دینا بھی شرط ہے ورنہ ہبہ باطل ہوجائے گا۔تاہم کمی بیشی بھی جائزہے جیسا کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ کو21وسق کجھوریں دیں جواور اولاد کونہ دیں ،حضرت عمر نے اپنے بیٹے عاصم کوایک دفعہ ایک خاص عطیہ دیا جواوراولاد کونہ دیا،عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیٹی ام کلثوم کو خاص عطیہ دیا جواوراولادکونہ دیا ،تمام صحابہ نے یہ واقعات دیکھے اور کسی نے انکارنہ کیالہذااس کے جوازپرصحابہ کااجماع ہوگیا ۔وقد فضل ابوبکرعائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا باحد وعشرین وسقا نخلھا ایاھا دون سائر اولادہ وفضل عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ عاصما فی عطائہ وفضل عبدالرحمن  بن عوف ولدام کلثوم ۔قال القاضی رحمہ اللہ وقررذلک ولم ینکرعلیھم فیکون اجماعا(مرقات ج6ص154،مؤلفہ علامہ علی بن سلطان محمدالقاری، متوفٰی1014ھ)

اللہ رب العزت نے وارث کونقصان پہنچانے سے منع فرمایا:

مِنْۢ  بَعْدِ  وَصِیَّةٍ  یُّوْصٰى  بِهَاۤ  اَوْ  دَیْنٍۙ-غَیْرَ  مُضَآرٍّ(النساء12:4)

(ترجمہ)میت کی وصیت اور دین نکال کر جس میں اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔

مفتی احمدیارخاں نعیمی مذکورہ  آیت کے تحت فرماتے ہیں:

بعض لوگ مرتے مرتے ایسی چالاکیوں سےاپنے پر قرض کرجاتےہیں کہ محض وارثوں کو نقصان پہچانے کے لیے، جس کا مشاہدہ اب بھی ہورہا ہے ۔فرمایا نبی کریم ﷺنے جووارثوں کی میراث قطع کرے انہیں محروم کردے یانقصان پہنچادے اللہ تعالی اسے جنت کی میراث سے محروم کردے گا۔تفسیرنعیمی جز4ص477

امام ابومحمد حسین بن محمود بغوی مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں :

كَرِهَ اللَّهُ الضِّرَارَ فِي الْحَيَاةِ وَعِنْدَ الْمَوْتِ، وَنَهَى عَنْهُ وَقَدَّمَ فِيهِ(تفسیر بغوی جز1ص492)واللہ اعلم باصواب
  • استکتبہ خادم العلم والعلماء حافظ غلام یاسین                                معین المفتی مولاناغلام دستگیراکبری
  • مفتی دارالعلوم جامعہ حنفیہ اشرف المدارس اوکاڑہ             تاریخ:5ربیع الثانی1446ھ بمطابق9اکتوبرر 2024ء
  •                               کتبہ:معین المفتی علامہ حامدسبحانی اوکاڑوی،مرکزی دارالافتاء جامعہ حنفیہ دارالعلوم اشرف المدارس اوکاڑہ

 

متعلقہ فتاویٰ